ویمنز کرکٹ ورلڈ کپ کی وہ ’سٹار‘ جو ابھی سات ماہ کی بھی نہیں ہوئیں
ڈینڈرا ڈوٹن کے بہترین کیچ، شبنم اسماعیل کی تیز رفتار باؤلنگ اور میگ لیننگ کی ستھری کٹنگ کے علاوہ غیر معمولی سٹار ننھی فاطمہ پر بھی فخر ہو گا، جو پاکستان کرکٹ ٹیم کی کپتان بسمہ معروف کی بیٹی ہیں۔
پاکستان کے خلاف جیت کے بعد انڈین کھلاڑیوں کی جانب سے فاطمہ کی تصویروں نے پوری دنیا میں دھوم مچا دی، دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کے تناظر میں ان تصاویر کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔
بسمہ کے لیے ورلڈ کپ میں اپنے ملک کی قیادت کرنے کے دباؤ کے ساتھ زچگی کے تقاضوں کا بھی برابر خیال رکھنا ایک بہت غیر معمولی کارنامہ ہے، اس کی اہمیت اس وقت دُگنی ہوگئی جب انھوں نے اگست میں ایک بچے کو جنم دیا۔ جب بسمہ سنہ 2020 کے آخر میں حاملہ ہوئیں تو انھوں نے سوچا کہ ان کا بین الاقوامی کرئیر اب ختم ہو گیا لیکن پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کی طرف سے رکھی گئی زچگی کی پالیسی اور کوچ ڈیوڈ ہیمپ کی حوصلہ افزائی سے بسمہ نے کرکٹ کی دنیا میں متاثر کن واپسی کی ہے۔بسمہ نے بی بی سی ورلڈ سروس کے پروگرام سٹمپڈ میں کہا کہ یہ ’میری زندگی کا ایک خوبصورت لمحہ تھا لیکن پیشہ ورانہ نقطہ نظر سے یہ غیر یقینی صورتحال کی وجہ سے خوفناک بھی تھا۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ کیا ہو گا۔ اس لمحے ایسا لگ رہا تھا کہ میرا کیریئر ختم ہو جائے گا۔‘جب بسمہ نے ڈیوڈ ہیمپ کو بتایا کہ وہ آٹھ ہفتوں سے حاملہ ہیں تو تب حال ہی میں انھوں نے ڈومیسٹک ٹی ٹوئنٹی میچز میں حصہ لیا تھا۔
ڈیوڈ ہیمپ کے مطابق بسمہ پریشان تھیں۔ ’ایک طرف جوش و خروش تھا لیکن بطور پلیئر انھیں محسوس ہوا ہو گا کہ ان کا مشن ابھی کچھ ادھورا ہے۔‘
اس وقت بسمہ کو پی سی بی کی ’پیرنٹل پالیسی‘ یعنی ماں بننے والی پالیسی کے بارے میں صحیح ادراک نہیں تھا۔
اس پالیسی کی شرائط کے تحت ایک سال کے لیے جاری تنخواہ کی ادائیگی اور بچوں کی دیکھ بھال میں مدد کے لیے ایک اضافی شخص کے ساتھ سفر کرنے کا انتظام شامل ہے، جس کی ادائیگی بورڈ نے کرنی ہوتی ہے۔
اس مدد کے باوجود گذشتہ اپریل میں کرکٹ سے وقفہ لینے کے اعلان کے ساتھ 30 برس کی نوجوان کھلاڑی کو یہ یقین نہیں تھا کہ وہ ورلڈ کپ کے لیے وقت پر واپس آ جائیں گی۔
ڈیوڈ ہیمپ کے مطابق ’میں نے (انھیں) بتایا کہ ورلڈ کپ ہدف ہونا چاہیے لیکن وہ بے چین تھیں۔‘’وہ پوچھ رہی تھیں کہ کیا وہ اپنی جگہ برقرار رکھنے، رنز بنانے اور اپنا حصہ ڈالنے کے لیے کافی اچھی ثابت ہو رہی ہیں۔ میرے پاس اس پر کوئی سوال نہیں تھا۔ مجھے ان میں اتنی قابلیت دکھائی دے رہی تھی کہ میں انھیں کہہ سکوں کہ وہ دوبارہ کھیل سکتی ہیں۔‘
جب بسمہ نے فاطمہ کی پیدائش کا اعلان کیا تو ان کی سوشل میڈیا پوسٹ پر 30 ہزار سے زیادہ صارفین نے ردعمل دیا۔
ڈیوڈ ہیمپ نے بسمہ کو ایک ماہ کے بعد دیکھا جس وقت وہ پہلے ہی ہفتے میں تین یا چار بار جم کر رہی تھیں۔
ڈیوڈ کے مطابق میں نے انھیں کہا کہ وہ کب کھیل شروع کریں گی تو ان کا جواب تھا کہ جب تک وہ جسمانی طور پر مکمل فٹ محسوس نہیں کرتیں تو پھر وہ ایسا نہیں کریں گی۔
ان کے مطابق ’بسمہ نے دسمبر میں کھیلنا شروع کیا مگر اس وقت بھی میرے خیال میں وہ ورلڈ کپ کے بارے میں زیادہ پراعتماد نہیں تھیں۔‘
بسمہ نے جب جنوری میں کچھ پریکٹس میچز میں حصہ لینا شروع کیا تو اس وقت ورلڈ کپ سے متعلق انھیں امید پیدا ہو گئی۔ ان میچز کے دوران بسمہ کو اب فیلڈ چھوڑ کر فاطمہ کو دودھ بھی پلانا ہوتا تھا۔
جب بسمہ فروری میں ورلڈ کپ کے لیے نیوزی لینڈ کے لیے روانہ ہو رہی تھیں تو اس کا مطلب دو ماہ گھر سے دور رہنا تھا اور بسمہ کے خاوند جو پیشے کے اعتبار سے ایک انجنئیر ہیں اپنے وقت سے اتنا وقت نہیں نکال سکتے تھے۔
بسمہ اس ٹورنامنٹ میں شمولیت اختیار کرنے والی آٹھ ماؤں میں سے ایک تھیں۔ یہ اس بات کی جانب اشارہ ہے کہ خواتین ماں بننے کے بعد بھی اپنا کھیل کا کرئیر جاری رکھ سکتی ہیں۔ جنوبی افریقہ کی اوپننگ بیٹسمین لزالے لی کی اہلیہ نے ورلڈ کپ سے دو ہفتے قبل ایک بچے کو جنم دیا۔
فاطمہ کا ورلڈ کپ کا تجربہ دلچسپ رہا جہاں وہ ہر میچ میں ہی موجود رہیں اور ٹیم کے دوسرے ایونٹس میں بھی وہ شریک رہیں۔
ہیمپ کہتے ہیں کہ ’کھلاڑیوں کا فاطمہ کے ساتھ رویہ بہت اچھا رہا۔ وہ بسمہ کو فارغ وقت دینے کے لیے چہل قدمی پر جاتے ہوئے فاطمہ کو اپنے ساتھ لے جاتیں۔‘
’مجھے صرف یہ تشویش تھی کہ ڈریسنگ روم میں ایک بچے کی موجودگی سے توجہ بٹ سکتی ہے لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ اس سے ڈریسنگ روم میں بے چینی کم ہوئی اور سکون آیا۔‘
بے شک فاطمہ کی موجودگی نے پاکستان کو جنوبی افریقہ اور بنگلہ دیش کے ہاتھوں سخت شکستوں سے نمٹنے میں مدد کی۔
ہیمپ کہتے ہیں کہ ’جب ایک بچہ مسکراتا ہے تو پریشانی اور مایوسی چلی جاتی ہے۔‘
اور جہاں کسی بچے کی موجودگی کی وجہ سے ٹیم کے لیے کچھ فائدے ہیں وہیں بسمہ کو ایک ایسے چیلنج کا سامنا تھا جو بچوں کی پیدائش کے بعد تمام والدین کو ہوتا ہے۔۔۔ نیند۔
ہیمپ کہتے ہیں کہ ’بسمہ کو سونے میں مشکلات کا سامنا تھا لیکن انھوں نے کوئی شکایت نہیں کی۔ ناشتے پر آپ دیکھ سکتے تھے کہ وہ کچھ تھکی ہوئی ہوتی تھیں۔ آپ جب ان سے پوچھتے کہ ان کی نیند کیسی رہی تو وہ کچھ نہ کہتیں تو آپ کو پتا چل جاتا۔‘
اس کے باوجود بسمہ کی قیادت میں پاکستانی ٹیم نے ویسٹ انڈیز کو شکست دی، جو 13 برس میں پاکستان ویمنز ٹیم کی ورلڈ کپ میں پہلی جیت تھی۔
جمعرات کے روز انگلینڈ اور پاکستان کے درمیان میچ سے قبل انگلینڈ کی کھلاڑی صوفیا ڈنکلے نے کہا کہ وہ فاطمہ سے ملاقات کے بارے میں پرجوش ہیں۔
صوفیا ڈنکلے نے کہا ’میں فاطمہ کو گلے لگاؤں گی کیونکہ وہ بہت پیاری ہیں۔ الفاظ یہ بیان نہیں کر سکتے کہ بچے کا پید ہونا اور پھر واپس آ کر کرکٹ کھیلنے سے آپ کیسا محسوس کرتے ہیں۔‘
لیکن صرف صوفیا ڈنکلے ہی فاطمہ سے ملاقات کی خواہش مند نہیں۔
ہیمپ کہتے ہیں کہ ’کسی بھی میچ کے اختتام کے پندرہ بیس منٹ بعد، مخالف ٹیم کی کھلاڑی ڈریسنگ روم میں پوچھتیں کہ بچی کدھر ہے۔‘
’ہم نے جتنے بھی میچ کھیلے، ہر کوئی فاطمہ کے ساتھ تصویر بنوانا چاہتا تھا۔‘
دوسری طرف فاطمہ بھی اس تمام شہرت کو خاصا انجوائے کر رہی ہیں۔
بسمہ کہتی ہیں کہ ’وہ کیمروں سے لطف و اندوز ہو رہی ہیں۔ جب وہ بڑے ہو کر اپنی تصاویر دیکھیں گی تو وہ بہت خوش ہوں گی کہ وہ ورلڈ کپ میں اپنی والدہ کے ساتھ تھیں۔ وہ ایک سٹار ہیں۔