When a Pakistani camel became the official guest of the United States/جب ایک اونٹ والاپاکستانی امریکہ کا سرکاری مہمان بنا
When a simple Pakistani camel became the guest of the American Vice President
On May 20, 1961, the then Vice President of the United States, London B. Johnson, arrived in Karachi on a visit to Pakistan. His convoy was heading towards the Presidency from the airport on Drug Road. There was a crowd of people on the side of the road welcoming him.Johnson, keeping all diplomatic and security etiquette at bay, stopped his car several times on the way and got out of the car, shook hands with the people and spoke cheerfully.He suddenly saw a camel car near Drug Road railway station. He stopped his convoy and got out of the car and went straight to the owner of the car named Bashir Ahmed without taking any precautionary measures. He spoke to her with the help of a spokesman. The camel was loaded with straw. Asked by London B. Johnson, Bashir Ahmed told him that it was cattle fodder and that his camel was five years old. Bashir Ahmed also told Johnson that he affectionately calls his camel 'Ghazi'. Johnson was very happy with Bashir Ahmed's simplicity and he asked him if we are friends from today and if he is his new friend Would love to come to America to meet.Bashir Ahmed replied, "Why not, why not." Of course, of course. Thank you, thank you. ”He could say nothing more than these words. Everyone laughed at that. Johnson gave Bashir a beautiful ballpoint pen as a gift.Bashir Ahmed may have forgotten this accidental meeting with the US Vice President but the next day his beautiful pictures were published in Pakistani newspapers. Overnight he became a great man of Pakistan. A few days later, Ibrahim Jalis, a well-known columnist in the daily 'Jang' Karachi, mentioned the incident in his column 'Etc. Etc.' and highly praised the move of London B. Johnson. Johnson, who had arrived in the United States, was deported. After reading this column, London B. Johnson remembered the camel driver of Karachi and the invitation given to him. London B. Johnson immediately sent an official invitation to Bashir Ahmed to come to the United States. Newspapers, US embassy staff, tourists and spectators all stormed his old hut in Landhi.Bashir Ahmed had been living in the hut since he left his home in Bar Bareilly and came to Pakistan. Bashir Ahmed, after receiving an invitation from the US Vice President, became confused as he dug wells and drank water every day. If he left for the US, how would his children survive?The US embassy resolved the issue by arranging for Rs 25 a day for his children in Bashir Ahmed's absence. Satisfied with this, Bashir Ahmed started preparations for his memorable journey.On the other hand, when this news became public in the American media, 'Reader's Digest' offered to host Bashir Ahmed in the United States and thus, after going through the process of passport and visa, Bashir Ahmed left for the United States on October 14, 1961. Before leaving for the trip, the government of Pakistan paid special attention to Bashir Ahmed's clothes and presented him with sherwanis and a Jinnah cape so that he could look like a dignified Pakistani when he arrived in the United States. The government also gave him some presents to present to London B. Johnson. When Bashir Ahmed left for the United States, US Ambassador William M. Reuter came to drop him off at the steps of the plane. The American airline Pan Am made him travel to the United States in first class. Arranged special Pakistani food for them and made an Urdu speaking Pakistani with them so that their journey could be cut short easily.Bashir Ahmed, a camel driver, now known as Bashir Sarban, arrived in the United States via London. In both London and New York, Bashir Sarban was given the official guest protocol. Among those who received him in the United States was Aziz Ahmed, Pakistan's ambassador to the United States. Bashir Ahmed's visit lasted about two weeks. Vice President Johnson renewed his meeting with him. Johnson looked at Bashir Ahmed and said to him, "It's a pity that the weather is bad here today and the winds are blowing." Bashir Ahmed, with the help of a spokesman, replied very calmly, " Bashir Sarban, who was illiterate at all, impressed the American media with his witty remarks. After the assassination of John F. Kennedy in 1963, London B. Johnson visited the United States. He became president and held the post until 1968. When London B. Johnson died on January 22, 1973, the media remembered Bashir Sarban once again. He was invited to the US Consulate in Karachi where he expressed his views in a condolence book on the death of London B. Johnson.After that, Bashir Sarban was once again lost in the darkness of poverty and anonymity, and when he passed away on August 14, 1992, many people did not even remember that the news and pictures of this anonymous person were ever published in newspapers around the world. I adorned the front page
مئی 1961 کو امریکہ کے اُس وقت کے نائب صدر لِنڈن بی جانسن پاکستان کے دورے پر کراچی پہنچے تھے۔ اُن کا قافلہ ڈرگ روڈ پر ہوائی اڈے سے ایوانِ صدر کی طرف رواں دواں تھا۔ سڑک کے اطراف ان کا خیر مقدم کرنے والی عوام کا ہجوم تھا۔جانسن نے تمام سفارتی اور حفاظتی آداب بالائے طاق رکھتے ہوئے کئی بار راستے میں اپنی گاڑی روکی اور گاڑی سے اُتر کر لوگوں سے ہاتھ ملائے اور خوش خلقی سے باتیں کیں۔ڈرگ روڈ ریلوے سٹیشن کے نزدیک انھیں اچانک ایک اونٹ گاڑی نظر آئی۔ وہ اپنے قافلے کو رُکوا کر گاڑی سے اترے اور حفاظتی تدابیر کا خیال کیے بغیر سیدھے اس گاڑی کے مالک کے پاس پہنچ گئے جس کا نام بشیر احمد تھا۔ انھوں نے ترجمان کی مدد سے اس سے بے تکلفانہ گفتگو کی۔اونٹ گاڑی پر بھوسہ لدا ہوا تھا۔ لنڈن بی جانسن کے استفسار پر بشیر احمد نے انھیں بتایا کہ یہ مویشیوں کا چارہ ہے اور اس کے اونٹ کی عمر پانچ سال ہے۔ بشیر احمد نے جانسن کو یہ بھی بتایا کہ وہ اپنے اونٹ کو پیار سے ’غازی‘ کہتا ہے۔بشیر احمد کی سادگی پر جانسن بہت خوش ہوئے اور انھوں نے اس سے کہا کہ آج سے ہم دونوں دوست ہیں اور کیا وہ اپنے اس نئے دوست سے ملنے کے لیے امریکہ آنا پسند کریں گے۔
بشیر احمد نے جواب دیا ‘کیوں نہیں، کیوں نہیں۔ بے شک، بے شک ۔ شکریہ ،شکریہ۔‘ ان الفاظ کے علاوہ وہ کچھ اور نہ کہہ سکے۔ اس پر سب لوگ ہنس پڑے۔ جانسن نے بشیر کو ایک خوبصورت بال پوائنٹ قلم تحفے کے طور پر دیا۔
بشیر احمد امریکی نائب صدر سے اس اتفاقیہ ملاقات کو شاید بھول جاتے مگر اگلے دن پاکستانی اخبارات میں ان کی خوبصورت تصاویر چھپی ہوئی تھیں۔ راتوں رات وہ پاکستان کے ایک بڑے آدمی بن گئے تھے۔ چند دن بعد روزنامہ ‘جنگ‘ کراچی میں معروف کالم نگار ابراہیم جلیس نے اپنے کالم ‘وغیرہ وغیرہ‘ میں اس واقعے کا ذکر کیا اور لنڈن بی جانسن کے اس اقدام کی بڑی تعریف کی۔ادھر امریکی سفارت خانے نے اس کالم کا ترجمہ لنڈن بی جانسن کو، جو امریکہ پہنچ چکے تھے، روانہ کر دیا۔ یہ کالم پڑھ کر لنڈن بی جانسن کو کراچی کا اونٹ گاڑی بان اور اس کو دی گئی دعوت یاد آ گئی۔لنڈن بی جانسن نے فوری طور پر بشیر احمد کو سرکاری طور پر امریکہ آنے کی دعوت بھجوا دی۔ جس کے بعد اخباری نمائندوں، امریکی سفارت خانے کے افراد، سیاح اور تماش بین سبھی نے لانڈھی میں اُن کی پرانی جھونپڑی پر یلغار کر دی۔بشیر احمد اس جھونپڑی میں اس وقت سے مقیم تھے جب وہ اپنا گھر بار بریلی میں چھوڑ کر پاکستان آئے تھے۔ بشیر احمد امریکی نائب صدر کی دعوت ملنے کے بعد ایک اور الجھن میں مبتلا ہوئے کہ وہ روز کنواں کھودتے تھے اور روز پانی پیتے تھے اگر وہ امریکہ چلے گئے تو ان کے بچوں کا رزق کیسے چلے گا۔
امریکی سفارت خانے نے اس مسئلے کا حل یوں نکالا کہ بشیراحمد کی عدم موجودگی میں اُن کے بچوں کو 25 روپے روزانہ دینے کا انتظام کر دیا۔ بشیر احمد اس طرف سے مطمئن ہوئے تو انھوں نے اپنے یادگار سفر کی تیاریاں شروع کر دیں۔
ادھر امریکی ذرائع ابلاغ میں جب یہ خبر عام ہوئی تو ‘ریڈرز ڈائجسٹ‘ نے امریکہ میں بشیر احمد کا میزبان بننے کی پیشکش کر دی اور یوں پاسپورٹ اور ویزے کے مراحل سے گزرنے کے بعد 14 اکتوبر 1961 کو بشیر احمد امریکہ کے سفر پر روانہ ہو گئے۔سفر پر روانگی سے قبل حکومت پاکستان نے بشیر احمد کے ملبوسات پر خصوصی توجہ دی اور انھیںشیروانیاں اور ایک جناح کیپ تحفے میں پیش کیں تاکہ وہ امریکہ پہنچ کر ایک باوقار پاکستانی کی طرح نظر آئیں۔ حکومت نے لنڈن بی جانسن کو پیش کرنے کے لیے کچھ تحائف بھی ان کے ہمراہ کر دیے۔بشیر احمد جب امریکہ کے لیے روانہ ہوئے تو امریکی سفیر ولیم ایم رائوٹر بہ نفس نفیس انھیں ہوائی جہاز کی سیڑھیوں تک چھوڑنے کے لیے آئے۔ امریکی فضائی کمپنی ’پین ایم‘ نے انھیں فرسٹ کلاس میں امریکہ کا سفر کروایا۔ ان کے لیے پاکستانی کھانے کا خاص انتظام کیا اور ان کے ہمراہ اُردو بولنے والا ایک پاکستانی کر دیا تاکہ ان کا سفر آسانی سے کٹ سکے۔بشیر احمد اونٹ گاڑی بان، جسے اب بشیر ساربان کہا جانے لگا تھا، لندن سے ہوتے ہوئے امریکہ پہنچے۔ لندن اور نیویارک، دونوں مقامات پر بشیر ساربان کو سرکاری مہمان کا پروٹوکول دیا گیا۔ امریکہ میں اُن کا استقبال کرنے والوں میں امریکہ میں پاکستان کے سفیر عزیز احمد بھی شامل تھے بشیر احمد کا یہ دورہ تقریباً دو ہفتے جاری رہا۔ نائب صدر جانسن نے ان سے اپنی ملاقات کی تجدید کی۔ جانسن نے بشیر احمد کو دیکھ کر ان سے تکلفاً کہا کہ ‘افسوس ہے کہ آج یہاں کا موسم خراب ہے اور خنک ہوائیں چل رہی ہیں۔‘ بشیر احمد نے ترجمان کی مدد سے نہایت قرینے سے جواب دیا ‘جب تک لوگوں کے دلوں میں جذبات کی گرمی ہے، سرد ہوائوں سے کچھ نہیں ہوتا بشیر ساربان نے، جو بالکل بھی پڑھے لکھے نہیں تھے، اپنی ذہانت سے بھرپور باتوں سے امریکی ذرائع ابلاغ کو بڑا متاثر کیا سنہ 1963 میں جان ایف کینیڈی کے قتل کے بعد لنڈن بی جانسن امریکہ کے صدر بن گئے اور اس عہدے پر وہ سنہ 1968 تک فائز رہے۔ 22 جنوری 1973 کو جب لنڈن بی جانسن کا انتقال ہوا تو میڈیا کو بشیر ساربان ایک مرتبہ پھر یاد آئے۔ وہ کراچی میں امریکی قونصل خانے میں مدعو کیے گئے جہاں انھوں نے لنڈن بی جانسن کے انتقال پر رکھی گئی تعزیتی کتاب میں اپنے تاثرات رقم کیے۔اس کے بعد بشیر ساربان ایک مرتبہ پھر غربت اور گمنامی کے اندھیروں میں گم ہو گئے اور 14 اگست 1992 کو جب اُن کا انتقال ہوا تو بہت سے لوگوں کو یہ بھی یاد نہیں تھا کہ اس گمنام شخص کی خبریں اور تصاویر کبھی دنیا بھر کے اخبارات میں صفحہ اوّل کی زینت بنی تھیں